بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے شعبے میں یورپی یونین کے اہم تھنک ٹینک 'یورپی یونین انسٹی ٹیوٹ فار سیکورٹی اسٹڈیز' نے یورپی حکام کو ایک تجزیاتی نوٹ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان اگلی کسی جنگ کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے: "اس طرح کی جنگ خطے میں یورپی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لہذا، تجویز ہے کہ اس طرح کی جنگ کو روکنے کے لئے عالمی سطح پر مذاکرات میں تین ممالک (فرانس، جرمنی اور برطانیہ) کے علاوہ، مزید یورپی ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
یوروپی یونین انسٹی ٹیوٹ برائے سیکیورٹی اسٹڈیز ((EU Institute for Security Studies [EUISS])) کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ دوسری جنگ کے یورپی مفادات پر اثرات کے حوالے سے جامع تجزیاتی رپورٹ کا خلاصہ پیش خدمت ہے جس میں میں یورپی خدشات، ان کی وجوہات، اور ایک نئی حکمت عملی کے عملی خاکے پر روشنی ڈالی ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
یورپ کے لئے خدشات کی نوعیت
یورپی حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان دوسری جنگ کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، اور ان کا زیادہ تر بوجھ اسرائیل یا ایران کے بجائے یورپ پر پڑے گا۔ ان خدشات میں درج ذیل پہلو شامل ہیں:
- توانائی کی سلامتی کا خاتمہ:
جنگ سے تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے یورپ کی توانائی پر انحصار کرنے والی صنعتیں مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔
- بین الاقوامی شپنگ میں خلل:
تنازع خلیج فارس اور بحیرہ احمر جیسی اہم آبی گذرگاہوں تک پھیلنے کا خطرہ ہے، جو عالمی تجارت اور سپلائی چین (Supply chain) کو شدت سے متاثر کر سکتا ہے۔
- ایران کے جوہری پروگرام میں تیزی:
جنگ کے دوران بین الاقوامی نگرانی کے محدود ہونے کے باعث، ایران غیر اعلان شدہ مقامات پر تیزی سے جوہری ہتھیار تیار کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
- امریکہ کی مزید ملوثیت:
یورپ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ تنازع میں امریکہ کی مزید ملوثیت یورپ کو ایک ایسے بحران میں گھسیٹ سکتی ہے، جس کی مالی و اقتصادی قیمت یورپ کو ادا کرنا پڑے گی۔
خدشات میں اضافے کی وجوہات
مذکورہ بالا خدشات میں حالیہ عرصے میں درج ذیل عوامل کی بنا پر خاصا اضافہ ہؤا ہے:
- خطے میں طاقت کے توازن کا بگڑ جانا:
7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اور امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی واپسی نے اسرائیل کو ایران پر براہ راست حملے کی جرأت دی۔
- ایران کی جوابی کارروائی کی صلاحیت:
ایران نے اپنے میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کے دفاعی نظام کو نقصان پہنچایا اور قطر میں امریکی اڈے پر حملہ کر کے یہ واضح کر دیا کہ وہ جنگ کے دائرہ کار کو وسیع کر سکتا ہے۔
- پہلی جنگ کے غیر فیصلہ کن نتائج:
پہلی جنگ نے کوئی حتمی فتح یا حل پیش نہیں کیا، جس کے باعث دونوں فریقوں کے درمیان موجودہ کشیدگی پھر بھی جنگ کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
- امریکہ کی محدود صلاحیتیں:
پہلی جنگ میں امریکہ کے مہنگے میزائل شکن سسٹمز کے میزائلوں کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس سے یورپ کو خدشہ ہے کہ اگلی جنگ کا بوجھ برداشت کرنے کی امریکہ کی صلاحیت ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ کم پڑ گئی ہے۔
یورپ کی تجویز کردہ نئی حکمت عملی: "وقت خریدنے کے لئے دوہری روک"
یورپی تجزیہ کار اب ایران کو 'جامع جوہری معاہدے' یا' صرف پابندیوں کے ذریعے' روکنے کے عمل پر انحصار کو غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے، EUISS ایک نئی حکمت عملی "دوہرا احتواء" (یا دوہری روک) تجویز کرتا ہے، جس کے تین بنیادی ستون ہیں:
1. باہمی روک تھام:
اس کا مقصد چھوٹے لیکن فوری اقدامات کے تبادلے کے ذریعے ایک توازن قائم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، مغربی ممالک ایران کی چین کو تیل کی ترسیل پر دباؤ ڈالنا روک دیں، اور اس کے بدلے میں ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو معطل رکھے۔ اس عمل میں یورپ اسرائیل پر بھی حملے نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالے گا۔
2. یورپ کی ثالثی میں توسیع:
ثالثی کی کوششوں کو صرف تین بڑے یورپی ممالک (E3) تک محدود رکھنے کے بجائے، سوئٹزرلینڈ، ناروے اور دیگر یورپی اداروں کو بھی اس عمل میں شامل کرنا تاکہ تہران، واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان بات چیت کے نئے راستے کھل سکیں!
3. خلیجی ممالک کو شامل کرنا:
قطر جیسے واقعات کے بعد، یورپ یہ سمجھتا ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل (GCC) کے ممالک بھی جنگ سے بچاؤ کے مشترکہ مقصد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے مشترکہ خوف کو جنگ روکنے کے مشترکہ عزم میں بدلا جا سکتا ہے۔
نتیجہ: یورپ کے نزدیک اگلی جنگ کے ممکنہ فاتح اور مفتوح کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی، کیونکہ اس کے نتیجے میں یورپ کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس لئے یورپ کی اولین ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دوسری جنگ کا آغاز ہی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجریر: رضا حسینی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ